ہفتہ وار درس سے اقتباس
قارئین کرام! عام سننے میں آتاہے کہ ”روزی تلا ش کرو“۔ آج میں آپ کی خدمت میں اس جملے کا صحیح اور اصل مفہوم عرض کرو ں گا ۔ اس کو یا د رکھیے گا اور ذہن نشین کر لیجئے گا۔ رو زی تلاش کرنا کیا ہے ؟کسی اللہ والے نے فرمایا کہ روزی کے ذرائع تلا ش کر و نہ کہ اسبا ب۔روزی ان ذرائع سے آئے گی جو ذرائع حضور مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائیں ہیں ۔ دنیا کو اللہ تعالیٰ نے دارلاسباب بنا یا ہے ۔ یہ جو ہمیں دھو کا لگا ہو اہے کہ دکان سے ہو رہا ہے ، دفتر سے ہو رہا ہے ، زمین سے ہو رہا ہے اور تجا رت سے ہو رہا ہے اورمیرے کرنے سے روزی بڑھ رہی ہے ۔یہ سب فریب ہے ۔ ایک درس میں میں نے عرض کیا تھا کہ نیک اور پرہیز گا ر دکاندار کے پا س کوئی آدمی چیز لینے گیا ۔ دکاندار نے گا ہک کا مطلوبہ سامان دکھا یا ، گا ہک نے کہا کہ چیز ایک نمبر ہے یا دو نمبر ۔ دکاندار نے چیز اٹھائی اور ایک طرف رکھ دی اور گا ہک کو جوا ب دیا کہ جنا ب میں نے رات کو چین سے سو نا ہے ۔ بس ایک لفظ میں کہا نی ختم ہو گئی ۔ دکاندار کا مقصد تھا کہ میں دو نمبر چیزیں نہیں بیچتا ، چیز لینی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ دوکا ن سے با ہر ہو جائو کیونکہ میں نے بے چینی سے رات نہیں گزارنی ۔پہلے بھی کئی دفعہ عر ض کر چکا ہو ں کہ روزی ہمیشہ روح کی طاقت پر ملتی ہے جسم کی طاقت پر نہیں۔ ایک جگہ ایک آدمی حلوہ روٹی تقسیم کر رہا تھا ۔ تقسیم کے دوران ایک بہت موٹا آدمی اس سے روٹی لینے آیا ۔ اس نے اسے ایک روٹی دی ۔ ساتھ کھڑے آدمی نے تقسیم کرنے والے کو کہا کہ اس کے جسم کا ہی خیا ل کر، ایک روٹی سے اس کا کیا بنے گا۔ اس نے مزید ایک روٹی کے اوپر حلوہ رکھ کر مو ٹے آدمی کو دے دیا ۔ وہ خاموشی سے روٹی لے کر ایک طرف ہو گیا ہے۔ روٹی تقسیم کرنے والے کا بڑا بھائی آیا ا س نے دیکھا کہ وہ شخص روٹی لےکر ایک طر ف ہو گیا ۔ اس نے موٹے آدمی کو آواز دی جس کا نام غالباً نام فدا حسین تھا، کہامزید روٹی چاہیے؟ اس نے کہا کہ ملک صاحب نہیں ، گزارہ ہو جائے گا۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال دی ہے ۔ اس با ت کو سمجھا نے کے لیے کہ جتنا طاقت ور یا مو ٹا جسم ہو تاہے ۔ اس کے مطابق روٹی کی تر تیب بنائی جاتی ہے۔ پہلے بھی یہ بات بتا چکا ہو ں پھر دوہرا رہا ہو ں ، روزی طاقتور روح کے ذریعے ملتی ہے، طاقتور جسم سے نہیں۔ اگر ایسا ہو تا تو پھر مو ٹے جسم والے کی روزی زیا دہ ہوتی اور ہر بندہ مو ٹا ہونے کی کوشش کر تا ۔لیکن مو جو دہ دور اس کے برعکس ہے کہ ہر آدمی سمارٹ ہو نے کی دوڑ میں لگا ہواہے ۔
میرے دوستو !روح کی طاقت پر روٹی ملتی ہے ، رزق کی تقسیم ہو تی ہے۔ روح جتنی طاقت ور ہو تی چلی جائے گی ، رزق بڑھتا چلا جائے گا۔ جیسے جسم کو طا قتور اور صحت مند رکھنے کے لیے منا سب غذا کی ضرورت ہو تی ہے ۔ اسی طرح روح کی بھی غذا ہے ۔روح کی غذا کیا ہے ؟نیکیا ں ، عبادات ، تسبیح ، درود شریف ، دھیا ن والی نماز، توجہ والی دعا، زاری والی تلاوت، یہ تمام روح کی غذائیں ہیں ۔ آپ جانتے ہیں کہ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کون تھے ؟ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کے والد کا نام ابوجہل تھا۔یہ وہی تو تھے جو حضرت بلا ل رضی اللہ عنہ کو اتنا ما رتے تھے کہ تھک جاتے تھے ۔ لیکن جب مسلمانو ں پر ظلم و ستم کرنے کے بعد توبہ کی اور کا لی کملی صلی اللہ علیہ وسلم والے کی غلامی اختیا ر کی تو اللہ پاک راضی ہو گئے ۔ ہما را سو فی صد یقین ہے کہ وہی عکرمہ رضی اللہ عنہ جنت میں اللہ پا ک کی نعمتوں کو لوٹ رہے ہیں اور ان کا باپ ابوجہل جہنم میں جل رہا ہے۔ مسلمان ہو نے کے بعد حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کے دل میں قرآن مجید کی اتنی عظمت تھی کہ قرآن مجید اٹھا کر فرما تے تھے کہ یہ میرے رب کا کلا م ہے ۔ پھر فرما تے ، پھر فرماتے اور اسی کیفیت میں بے ہو ش ہو جاتے تھے ۔
دوستو !آپ کو ایک عجیب بات بتا ئو ں جو میں نے ایک اللہ والے سے سنی تھی کہ صحا بہ کرام رضی اللہ عنہ کی ساری تا ریخ پڑھ کر دیکھیں توآپ کو معلوم ہو گا کہ صحا بہ کرام رضی اللہ عنہ پر مسلسل سات سال مجاہدے آئے ہیں ۔ قربانیا ں آئی ہیں اور خو ب آئی ہیں ۔ پھر سات سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے رزق کے فیصلے کیے ہیں ۔ اللہ پا ک نے صحا بہ کرام رضی اللہ عنہ کو اتنا رزق دیا کہ کوئی صحا بی رضی اللہ عنہ ایسا نہ تھا جو زکوۃ نہ دیتا ہو ۔ یہا ں آپ کو ایک وضا حت کر تا چلوں کہ زکوٰۃ کب فرض ہو تی ہے؟جب مال ضرورتوں سے بڑھ جائے تو زکوٰۃ فرض ہو تی ہے۔ ضرورتوںپر تو زکوٰۃ ہے ہی نہیں ۔ صحا بہ کرام رضی اللہ عنہ نے سات سال قر با نی دی ہے کہ میں نے جھوٹ بول کر رزق نہیں کما نا، یہ حرام کام نہیں کرنا، اس سے اللہ جل شانہ‘کا دین مٹتا ہے ۔ اس ذریعے سے میں رزق حرام نہیں کمائوںگا ۔ ان سا ت سالو ں میں صحا بہ کرام رضی اللہ عنہ نے اپنے من کی ، اپنی چاہتو ں کی ، اپنے بچو ں کی ، اپنے گھر کی ، اپنی زندگی کے ایک ایک نظام کی قربانی دی ہے ۔ ان قر بانیو ں کے بعد رزق کے دروازے کھلے تھے کہ ”فی دین اللّٰہ افواجا “ کہ دین کے اندر فوجو ں کی فوجیں داخل ہو ئیں ۔میں ایک تفسیر پڑھ رہا تھا کہ اللہ جل شانہ‘ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی قربانیو ں اور مجا ہدوں پر اتنا مال دیا کہ ایران کے با دشاہ کا تخت جو سونے کا بنا ہوا تھا اور ستا ئیس (27 )من کا تھا اسے کلہاڑوں سے کا ٹ کا ٹ کر صحا بہ کرام رضی اللہ عنہ میں تقسیم کیا گیا اور جس گھر میں سونا کلہا ڑوں سے کٹا ہو ا آئے ۔ کیا اس گھرمیں رزق کی کوئی کمی ہو گی ؟۔ کوئی کمی نہیں ہو گی ۔ اسی با ت پر اپنے حضرت شیخ کی بڑی پرانی با ت یا دآئی کہ دیکھو نیکیو ں کو لکڑی کے ٹال کے ترازوکے مطا بق کرو اور گناہوںکوسنار کے ترا زو پر پرکھو۔ مطلب یہ ہے کہ جس طر ح لکڑی کے ٹال والا لکڑی تولتے وقت کلو یا دو کلو کے زائد وزن کوکوئی اہمیت نہیں دیتا ۔تم بھی نیکی کر تے وقت زائد نیکی کی طرف توجہ نہ دو۔ اور اگر کوئی گنا ہ سرزد ہو جائے تو اس کو سنار کے ترازوپر پرکھیں ، جس طرح سنا ر سونے کا وزن کر تے وقت ہوا تک کے وزن کو اہمیت دیتے ہیںاور بڑی احتیا ط سے سونے کا وزن کر تے ہیں۔ تم بھی گناہوں سے بچنے کےلئے یہ طریقہ اختیا ر کرو تاکہ حتیٰ الامکان تم سے گنا ہ سرز د نہ ہو پھر اللہ پا ک تمہارے لیے رزق میں برکت کے فیصلے کرینگے ۔ (جا ری ہے )
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں